حصول عزت وسربلندی کا باعث قرآن وحدیث بھی

شفیق الرحمن عبدالکریم سلفی بھیونڈی

قرآن پاک اور احادیث نبویہﷺ:  قرآن پاک اور ارشادات نبویہ ﷺ ہدایت،نور وعزت کا منبع اور زندگی کے تمام معاملات کا حل بھی ہیں۔اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کے حقوق اداکئے جائیں۔یعنی قرآن مجیداوراحادیث پر اسی طرح ایمان لایا جائے جس طرح صحابہ کرام ؓ ایمان لائے پھر اسکی تلاوت ومطالعہ کی جائے،سمجھائے جائے اورعمل کیا جائے جیسا کہ صحابہ کرام اور سلف صالحین سمجھے اور عمل کئے۔لیکن آج مادہ پرست دور میں بہت سے مسلمانوں کا قرآن واحادیث سے دوردورکارشتہ بھی نظرنہیں آتاہے بلکہ ان کے اور قرآن واحادیث کے مابین ایک خلیج واقع ہے پھربھی ذلت وخواری کا شکوہ کرتے ہیں۔ علامہ اقبال کے زبان میں شکوہ کرنا پڑتا ہے۔

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر

اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر 
قرآن کی لغوی تعریف:  بعض علماء نے اسے اسم جامد (قرآن) ہی پڑھا ہے اور بعض علما ء نے اسے اسم مشتق مانا ہے،جس کے چند معانی ہیں:
۱۔ایک چیز کا دوسری کے ساتھ مل جانا۔

۲۔دلائل وبرہان۔

۳۔ پڑھنا یا تلاوت کرنا۔

۴ ۔ جمع کرنا اور ملانا۔(المنجد:۷۸۸،۷۸۹)
قرآن کی اصطلاحی تعریف:  ’’ھوکلام اللہ تعالیٰ المنزل علی محمدﷺ بواسطۃ جبریل علیہ السلام المبدوء بسورۃ الفاتحۃ والمختوم بسورۃ الناس والمتعبد بتلاوتہ‘‘ (قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی وہ کلام ہے جو جبرئیل ؑکے واسطے سے آخری نبی حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی جس کی ابتداء سورہ فاتحہ سے ہوتی ہے اور انتہا سورہ ناس پر ہوتی ہے اور اسکی تلاوت کرنا عبادت ہوتی ہے)۔( البرھان فی علوم القرآن ۱؍۲۷۸، والاتقان ۱؍۸۷، ودراسات فی علوم القرآن الکریم ۱۸،۲۲)
قرآن مجید کی قدرومنزلت:  قرآن مجید ایک ایسی بے مثال ولاثانی کتاب ہے جوکائنات کی رشدوہدایت کے لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے زمین میں بھیجی ہے۔اسکی قدرومنزلت میں چند نکات ذیل میں مرقوم ہیں:
٭  قرآن مجید اللہ کی رسی ہے اس کا ایک کنارہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسراکنارہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے۔(الصحیحۃ ۷۱۳)              
٭  قرآن مجید نوروہدایت کا سرچشمہ ہے۔(صحیح الجامع:۱۳۵۱)

٭  قرآن پاک کی ایک حرف کی تلاوت دس نیکیوں کا ذریعہ ہے اور اس کا سماع بھی باعث اجروثواب ہے۔(الصحیحۃ ۶۶۰، ومسندالامام احمد۲؍۳۴۱)

٭ قرآن کریم کامعلم ومتعلم پوری کائنات سے افضل ہے۔(صحیح البخاری ۵۰۲۷)

٭قرآن مجید بہترین سفارشی ہے۔(صحیح مسلم ۸۰۴)

٭قرآن کا قاری قیامت کے دن فرشتوں کی صف میں کھڑا ہوگا۔(صحیح مسلم۱۸۵۹)

٭قرآن پاک اللہ کی رضااور قاری کے لئے تاج پوشی اور خلعت فاخرہ کاسبب ہے(صحیح الجامع۸۰۳۰)۔

٭قیامت کے دن قاری کو عجیب وغریب اعزاز سے نوازا جائیگا کہ وہ قرآن کو پڑھتا جائیگا اورجنت کی سیڑھیاں چڑھتا جائیگا۔(جامع ترمذی۲۹۱۴)     
حدیث کی لغوی تعریف:  لغوی اعتبار سے حدیث کا معنیٰ ہے،’’کسی چیز کا نیا اور جدیدہونا‘‘ ۔ اس کی جمع خلاف قیاس ’’احادیث ‘‘ آتی ہے۔
حدیث کی اصطلاحی تعریف:  ’’کل ماأضیف الی النبی ﷺ من قول او فعل او تقریر او صفۃ‘‘ (ہر وہ قول یا فعل یا تقریر یا صفت جو نبی ﷺ کی طرف منسوب ہو، اسے حدیث کہتے ہیں)۔
قرآن اورحدیث قدسی کے مابین فرق:  ۱) قرآن لفظا ومعنیً دونوں طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے منزل ہے اور حدیث قدسی میں معنیٰ اللہ کی طرف سے اور الفاظ آپ ﷺ کے ہوتے ہیں۔  ۲) قرآن کی تلاوت عبادات محضہ میں سے ہے جبکہ حدیث قدسی کا پڑھناعبادت محضہ نہیں ہے۔
حدیث کا مقام  ومرتبہ:  قرآن کریم کے بعد آپ ﷺ کے فرمودات مسلمانوں کے لئے ایک مکمل دستورالعمل اور ضابطہ حیات اور تمام بیماریوں کا مداوا ہے۔  اس کے مقام ومرتبہ میں چندنصوص مذکور ہیں۔ 

۱)  ’’وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیھا الا لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ‘‘(اور اے رسول ﷺ جس قبلہ کی طرف آپ پہلے منہ کرتے تھے اس کو ہم نے کسی اور مقصد کے لئے مقرر نہیں کیا تھا سوائے اس کے کہ ہم دیکھ لیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں (کفر کی طرف) واپس ہوجا تا ہے)۔ (سورہ بقرہ:۱۴۳)          

 ۲)  نبی ﷺ نے فرمایا:’’الا انی اوتیت القرآن ومثلہ معہ‘‘  (سنو!مجھے قرآن کریم دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز (بھی)۔(سنن ابی داؤد:۴۶۰۴)          
۳)  رسول اللہ ﷺ کا رشاد ہے:’’ترکت فیکم امرین لن تضلوا ماان تمسکتم بھما:کتاب اللہ وسنتی،ولن یتفرقا حتیٰ یردا علیٰ الحوض‘‘ (میں نے تم میں دو امر چھوڑے ہیں جب تک ان دونوں کو تھامے رہو گے(تو) گمراہ نہیں ہوسکتے، یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب اور میری سنت اور یہ دونوں الگ نہیں ہوںگے یہاں تک کہ حوض پر واردہوں)۔ (بروایت مالک وحاکم بسند حسن)
مذکورہ بالانصوص اس بات پر دال ہیں کہ قرآن اورحدیث جزء لاینفک ہیں، ایک دوسرے سے جداوالگ نہیں ہیں۔دنیا وآخرت میں سرخروئی اور عزت کے لئے دونوں پرایمان وعمل لازم وواجب ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت اور اس پرعمل سربلندی وعزت ہے اور اس سے انحراف تنزلی کا باعث ہے:  حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ان اللہ یرفع بھذا الکتاب أقواما ویضع بہ آخرین‘‘ (بے شک اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ساتھ کتنی قوموں کوبلند کرتا ہے اور کتنوں کو پست کرتا ہے) (صحیح مسلم:۱۸۹۴، وسنن ابن ماجہ:۲۱۸)  اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے بیان فرمایا:’’ وعلیک بذکراللہ وتلاوۃ القرآن فانہ روحک فی السماء وذکرک فی الارض‘‘ ( اور اللہ تعالیٰ کا ذکرکراور قرآن مجید کی تلاو ت کرکیونکہ یہ ذکر اور تلاوت تیرے لئے آسمان میں خوشگواری اور زمیں میں عزت کا باعث ہے۔)(صحیح الجامع:۲۵۴۳)۔
معلوم ہواکہ قرآن مجید ایک ایسی عظیم کتاب ہے کہ اس کی تلاوت اوراس پرعمل کرنے سے اللہ قوموںکو عروج وعزت عطاکرتاہے اور انحراف کی صورت میں ان کوبرباد وذلیل کرتا ہے۔ اگرتاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جب تک مسلمانوں کاقرآن سے محبت وعمل خالص تھا تووہ لوگ کائنات میں کمندیں ڈالے ہوئے تھے آج وہی مسلمان قرآن سے دوری کی وجہ سے مقہور،ذلیل ورسوا ہیں۔
غزوہ احد میں قاری قرآن کی عزت:  غزوہ احد میں ستر صحابہ کرام ؓ  شہید ہوگئے،جب آپ ﷺشہید کوقبر میں اتارتے تو پوچھتے کہ ان میں قرآن کون زیادہ پڑھتا اور سمجھتا تھا؟صحابہ کرام جس شہید کی طرف اشارہ کرتے نبی کریم ﷺاس کو پہلے پکڑ کرقبر میں اتارتے، بعد میں دوسرے کو اتارتے تھے کیونکہ قرآن پڑھنے والے کا مقام بلند ہے۔
قرآن سے دنیا میں بھی عزت:  امیر المؤمنین حضرت عمرؓ نے حضرت ابن ابی ابزیٰ ؒ کو ایک عظیم عہدے پر فائز کئے تو ایک آدمی کہنے لگا:اے امیر المؤمنین! آپ نے ایک غلام کو اس قدر عظیم منصب پر فائز کردیئے؟ آپ فرمانے لگے: اے اللہ کے بندے! دنیا میں حقیقی عزت صرف قرآن شریف کی وجہ سے ملتی ہے۔ وہ اگر چہ نسب کے اعتبار سے عالی مقام نہیں رکھتا مگر’’انہ قاری لکتاب اللہ‘‘ وہ قرآن مجید کو اچھی طرح پڑھنے والا اور جاننے والا ہے۔ (صحیح مسلم:فضائل القرآن:۱۸۹۷) ۔ معلوم ہواکہ صحابہ کرام اور سلف صالحین عہدہ ومنصب وحکومت صاحب قرآن وحدیث کو دیا کرتے تھے لیکن آج یہ تو بہت بڑا المیہ ہے کہ ان سے صرف نظر کرتے ہوئے عہدے ومنصب ولیڈر جیسی عظیم امانت اور ذمہ داری آوارہ مزاج اوربے دین لوگوں کے سپرد کردی جاتی ہے اور اسی وجہ سے ہم ذلیل وخوار ہیں نہ عالمی طور پر عزت اور نہ ملکی طور پر کوئی سکون ۔نیزمذکورہ بالااثر سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہروقت اورہرجگہ مسلمانوں کے پاس امیر اور لیڈر ہونا چاہئے، اسی لئے آپﷺ نے فرمایاکہ اگر تم تین مسلمان سفر کرو تواپنا امیر یالیڈر منتخب کرلو۔لیکن بڑے افسوس کے ساتھ قلم کو جنبش کرنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان میں تقریبا مسلمانوں کی ۲۵کروڑ آبادی ہے اور ان کے پاس کوئی لیڈر نہیں۔
احادیث پرعمل کرنے سے قابل رشک عزت:  واقعہ قدرتفصیل ہے خوف طوالت کی وجہ سے مختصرا پیش خدمت ہے۔اسلام کے ابتدائی دور میں کفار مشرکین مسلمانوں پرجوروستم کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔اسی درمیان ہجرت کا حکم ہوا، کچھ مسلمان حبشہ تشریف لے گئے۔لیکن مشرکین کو سخت قلق تھاکہ مسلمان اپنی جان اوراپنا دین بچاکر پر امن جگہ چلے گئے۔ لہذا انہوں نے اپنے دوقاصدکو بادشاہ حبشہ کے پاس قیمتی تحائف کے ساتھ روانہ کئے۔ تاکہ بادشاہ کو ورغلا کرمسلمانوں کو وہاں سے نکلو ادیں۔یہ لوگ بادشاہ کے پاس پہونچ کرشکایتیں کئے،لیکن بادشاہ نے سوچا کہ اس قضیئے کو گہرائی سے کھنگالنا اور اس کے تمام پہلوؤں کو سننا ضروری ہے، چنانچہ اس نے مسلمانوں کوبلا بھیجا۔مسلمان یہ تہیا کرکے گئے کہ ہم سچ ہی بولیں گے ۔خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو۔جب مسلمان آگئے تو نجاشی بادشا ہ نے پوچھا: یہ کون سا دین ہے؟جسکی بنا پر تم نے اپنی قوم سے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔ نہ تو تم لوگ میرے دین میں داخل ہوئے اور نہ ہی دیگر ملتوں میں داخل ہوئے۔مسلمانوں کے ترجمان حضرت جعفرؓبن ابی طالب نے کہا: اے بادشاہ !ہم لوگ جاہل تھے،بت پوجتے تھے، مردارکھاتے تھے، بدکاریاںکرتے تھے،قرابتداروں سے رشتہ توڑتے تھے،ہمسایوں سے بدسلوکی کرتے  تھے اور ہم میں سے طاقتور کمزورکوکھارہاتھا۔ہم اسی حالت میں تھے کہ اللہ نے ہم ہی میں سے ایک رسول بھیجا،اس کی عالی نسبی،سچائی،امانت اور پاکدامنی ہمیں پہلے سے معلوم تھی۔ اس نے ہمیں ایک اللہ اوراسکی عبادت کی طرف بلایا، اس نے ہمیں سچ بولنے،امانت اداکرنے،قرابت جوڑنے،پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے اور حرام کاری وخونریزی سے باز رہنے کا حکم دیا اور فواحش میں ملوث ہونے، جھوٹ بولنے، یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن عورتوں پر جھوٹی تہمت لگانے سے منع کیا۔ اسی طرح حضرت جعفرؓ نے اسلامی تعلیمات اور آپ ﷺ کے فرمودات بیان کئے۔ پھر کہے کہ: ہم نے اس پیغمبر کو سچا مانا،اس پرایمان لائے ،ایک اللہ کی عبادت کی اور جن کوحلال بتایا اسکو حلال سمجھے اور جس کو حرام بتایا تو اسکو حرام سمجھے۔ اس پر ہماری قوم ہم سے بگڑ گئی۔ وہ لوگ ہم پر ظلم کرنے لگے۔اور ہمیں ہمارے دین سے پھیرنے کے لئے فتنے اورسزاؤں سے دوچار کئے تو ہم نے آپ کے ملک کی راہ لی اور یہ امید کی کہ اے بادشاہ!آپ کے پاس ہم پر ظلم نہیں کیا جائیگا۔نجاشی نے کہا :وہ پیغمبر جو کچھ لائے ہیں اس میں سے کچھ تمہارے پاس ہے؟حضرت جعفرؓ نے کہا: ہاں۔ نجاشی نے کہا : ذرا مجھے بھی پڑھ کر سناؤ۔ حضرت جعفر نے سورہ مریم کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائے۔نجاشی بادشاہ اس قدر رویا کہ اس کی داڑھی تر ہوگئی اور نجاشی کے تمام اسقف اس قدرروئے کہ ان کے صحیفے تر ہوگئے۔پھر نجاشی نے کہا کہ یہ کلام اور وہ کلام جو حضرت عیسیٰ ؑ لے کر آئے تھے ایک ہی شمع دان سے نکلے ہوئے ہیں۔

مختصرا یہ ہے کہ بادشاہ نے مسلمانوں سے کہا کہ تم لوگ میرے قلمرو میں امن وامان اور عزت کے ساتھ رہو۔ جو تمہیں گالی دے گا اس پرتاوان لگایا جائیگا۔ مجھے گوارا نہیں کہ تم میں سے کسی آدمی کوستاؤں اور اس کے بدلے مجھے سونے کا پہاڑ مل جائے۔ کفار کے قیمتی تحائف کو بادشاہ نے ردکردیا اور وہ دونوں بے آبرو اوربے عزت ہوکرچلے آئے(مزید جانکاری کے لئے ابن ہشام ۱؍۳۳۴تا۳۳۸ ، رحیق المختوم۱۴۱تا۱۴۵ کا مطالعہ کریں)
               مذکورہ بالا تاریخی واقعہ سے بہت سارے دروس حاصل ہوتے ہیں چند ذیل میں مرقوم ہیں۔
٭قرآن اور حدیث پر ہی عمل کرنے سے دنیا وآخرت میں عزت وسربلندی حاصل ہوتی ہے۔

٭مسلمانوں کانبی ﷺ کی تعلیمات اور احادیث پرعمل کرنے کی وجہ سے نجاشی بادشاہ مسلمانوںکو عزت دیتے ہوئے یہ قانون بنادیاکہ مسلمانوںکو کوئی تکلیف نہیں دے سکتا ہے یہاں تک کہ گالی بھی نہیں اور اگر کوئی تکلیف یاگالی دیا تو اس پر جرمانہ عائد کیا جائیگا۔

٭تعصب سے بچتے ہوئے حاکم وقت کو طرفین کے دلائل کو گہرائی سے کھنگالتے ہوئے تمام پہلوؤں کو سنکر فیصلہ صادر فرمانا چاہئے۔

٭اللہ تعالیٰ دشمنان اسلام کے چالوں کو بیکار وبرباد کرکے ان کو ذلیل وخوار کرتا ہے۔