محاضرہ دکتور قاضی سفیان مدنی حفظہ اللہ

بروز جمعرات مورخہ ۱۵ ستمبر ۲۰۲۲ شہر بھیونڈی، تھانہ میں مشہور سلفی ادارہ جامعۃ التوحید ، کھاڑی پار ، بھیونڈی میں سر زمین مہسلہ کوکن سے تشریف لانے والے جامعۃ محمدیہ مہسلہ کوکن کے مدیر اور مصنف کتب عدیدہ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے ہونہار طالب اور ہمارے جامعۃ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں کے دیرینہ دوست فضیلۃ الدکتور قاضی سفیان مدنی حفظہ اللہ کی آمد ہوئی۔ شیخ الجامعہ شیخ نثار احمد مدنی، اور نائب شیخ الجامعۃ عبدالرشید سلفی حفظہ اللہ نے دکتور قاضی سفیان کا والہانہ استقبال کیا بعدہ جامعہ کے کیمپس کی زیارت کا مرحلہ پورا کیا گیا ۔پھر جامعہ کے طلبہ کو شیخ موصوف کے وعظ و پند اور تجربات سے مستفید کرنے کے لئے آنا فانا ایک تذکیری پروگرام ترتیب دیا گیا۔ جو دوپہر سوا بارہ بجے تا پونے ایک بجے تک جاری رہا۔ شیخ موصوف نے اپنے مختصر مگر جامع درس میں طلباء جامعہ کو نصیحت کرتے ہوئے قرآنی آیات و احادیث نبویہ اور تاریخی دلائل کے معتبر حوالہ جات کے ساتھ درج ذیل اہم مسائل کے اہتمام کی طرف توجہہ دلائی اور ان کو اپنی زندگی میں لانے پر ابھارا کہ

۱-دینی تعلیم کا حصول فرض ہے ہر طرح کی بلندی اسی علم۔ نافع میں پنہاں ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے آدم علیہ السلام کو علم نافع سکھلا کر مسجود ملائکہ بنا دیا خود رسول اکرم اللہ پاک سے اس کے اسمائے حسنی اور صفات علیا کا واسطہ دے کر یہ دعا فرماتے تھے کہ قرآن مجید کو سکون کی بہار بنادے۔ تو ان دونوں دلیلوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ مرد مومن کی دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی سے مشروط ومربوط ہے۔

۲_ اپنے والدین اور اساتذہ کے لیے تاعمر دعاگو رہیں کہ انہوں نے آپ کی دنیا و عقبی سنوارنے کے لیے دینی علم کی راہ منتخب کی اور اس سلسلے میں ہر ممکنہ سہولت و خدمت انجام دی

۳_ اپنے والدین اور اساتذہ کا ادب و احترام خود پر لازم کرلیں کیوں کہ تاریخ شاہد ہے کہ جو طلبہ زمانہ طالب علمی میں بے ادب رہے وہ اپنی عملی زندگی میں گمنام و محرومی کی زندگی گزارنے پر مجبور نظر آئے جب کہ جو طلبہ اپنی کند ذہنی اور کم عقلی کے باوجود اساتذہ کے سامنے باادب اور تابع فرمان بن کر علم سیکھتے رہے وہ اپنی عملی زندگی کے اندر نامور اور تاریخ ساز بن کر چمکے ۔ آپ نے بتایا کہ کالج لائف اور مدرسے کی لائف ہر جگہ ادب کا پھل ملتا ہے۔ استاد کا ادب قسمت چمکاتا ہے جبکہ استاد کی بے ادبی زندگی میں بے برکتی و محرومی لاتی ہے۔

۳_ اپنے سلوکیات و تصرفات کو اسلامی رنگ مین رنگ دیں۔ آپ کو اپنی اسلامی ثقافت کا علم بردار بن کر رہنا چاہیے۔ آپ کا سراپا اسلامی ثقافت کا ترجمان ہونا چاہیے۔ اپنی وضع قطع، چال ڈھال، پوشاک اور بدن و روح کی صفائی وغیرہ کو معمولی نہ سمجھتے ہوئے ان اسلامی تہذیب و ثقافت کی پاس داری کرنی چاہیے۔ آپ نے بتایا کہ ۱۸۵۷ کے اندر کلکتہ میں ولیم فورٹ کالج کے مؤسس انگریز لارڈ والسرائے کو محض اس وجہ سے برطانوی حکومت نے لندن میں نوبل پرائز ایوارڈ سے نوازا کہ اس نے کہا تھا کہ میرے کالج سے نکلنے والا ہر ہندوستانی رنگ و روپ، زبان و شناخت کے اعتبار سے ہندوستانی ہوگا لیکن فکر و نظر کے اعتبار سے “ثنا خوان تقدیس مغرب” ہوگا۔ مغربی اور فرنگی کلچر اس کے رگ و پے میں پیوست ہوگی۔

آپ نے حضرت عمر کے عہد مبارک کا تاریخی حوالہ دیتے ہوئے کہ جب آپ کے عہد مبارک میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کی قیادت میں فلسطین فتح ہوا اس وقت کے عیسائی پوپ اور حکومتی عملہ نے مصالحت کے لئے مدینہ سے حضرت عمر رضی الله عنہ کو مدینہ سے فلسطین بلایا مقام جابیہ پہنچ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عیسائی پادریوں اور حکمرانوں سے جن پانچ اہم شرائط و ضوابط پر مصالحت کی اس کے ایک ایک جزء سے اسلامی ثقافت اور تہذیب کی برتری اور انفرادیت اور خاص شناخت جھلکتی ہے۔ ٹوپی، عمامہ، کرتا، جوتا، بالوں کی مانگ وغیرہ کے لئے مسلمان جس انداز سے رہیں گے عیسائیوں کو اس طور و طریقے کے اپنانے کی آزادی نہ ہوگی۔ ان شرائط کے ساتھ آپ نے عیسائی مرکز دانش کو یہ پیغام دیا کہ

” خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی”

٤۔ شیخ نے کہا کہ جامعہ تشریف لاکر بڑی خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ طلبہ کے ہجوم میں حال دل کہتے ہوئے اپنائیت محسوس ہورہی ہے۔ اور انہی قیمتی نصیحتوں کے ساتھ شیخ نے اپنی بات ختم کی ۔

ناظم مجلس فضیلۃ الشیخ نثار احمد مدنی حفظہ اللہ نے مہمان محترم کے گراں قدر توجیہی کلمات پر اپنی طرف سے اور جملہ اساتذہ کی طرف سے دکتور صاحب کے جامعہ کی زیارت کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا ۔ نیز آپ کے سفر کے بابرکت ہونے کی دعا فرمائی۔ ساتھ ہی اختتام مجلس کا اعلان کیا۔ اس پروگرام میں ناظم جامعہ بھی شریک تھے۔

ابو زید عبدالرزاق محمدی