جمعیت اور جامعہ ایک نظر میں

رشید سمیع سلفی

جامعۃ التوحید جمعیت اہل حدیث ٹرسٹ بھیونڈی کا ساختہ پرداختہ ادارہ ہے اورجمعیت اہل حدیث ٹرسٹ بھیونڈی شہر بھیونڈی کی ایک فلاحی تنظیم ہے،جمعیت اپنے آغاز قیام سےلیکر تادم تحریر شہر ومضافات میں دینی دعوتی،تعلیمی،رفاہی سماجی خدمات انجام دے رہی ہے جس کا اعتراف اپنے اور غیر سب کرتے ہیں،شہر کی 9مساجد کا انتظام وانصرام اور جملہ امور جمعیت سنبھالتی ہے،جمعیت مختلف شعبوں کے تحت الگ الگ میدانوں میں سرگرم عمل ہے،جمعیت کا ایک شعبہ دارالقضا بھی ہے جس کے تحت سوالات کے تحریری جواب دینا نیز نکاح،خلع،طلاق اور میراث کے تنازعات حل کرنادارالقضا کی اہم ذمہ داری ہے، شعبۂ دعوت کے زیر نگرانی پورے شہر میں ایک دعوتی نیٹ ورک پھیلا ہوا ہے،دعوتی سرگرمیوں میں شہر میں ماہانہ اجتماعات،مساجد میں ہفتہ واری و بندر روزہ دروس اور مضافات میں دعوتی دورے اورمختلف مناسبات پر اصلاحی پمفلٹس کی تقسیم شامل ہیں،جمعیت کے بیت المال سے 52 غریب،نادار اور بیوہ خواتین کو ماہانہ وظائف بھی دئے جاتے ہیں،کرونا پیریڈ میں مریضوں کیلئے آکسیجن کی فراہمی کا نظم بھی کیا گیا ہے،گذشتہ لاک ڈاؤن میں 2300خاندانوں میں راشن بھی تقسیم کیا گیا ہے،جمعیت کا ایک امتیاز یہ ہیکہ رمضان میں صدقۃ الفطر کی تقسیم کا ایک انوکھا طریقۂ کار ہے جس سے ہر سال پندرہ سو خاندان مستفید ہوتے ہیں اور ہر سال تعداد میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔

تعلیمی شعبہ کے تحت مساجد میں روزینہ اور شبینہ تعلیم اور دین کے مبادی سے اسکولی طلبہ کو روشناس کرایا جاتا ہے،تعلیمی محاذ پر جامعۃ التوحید کی تعمیر وترقی جمعیت کا بہت بڑا کارنامہ ہے،دینی تعلیم کے فروغ کیلئےاس ادارے کی شروعات جناب ظفر اللہ خطیب اور آپ کے برادران نے کیا تھا ،ایک عرصے تک چند کمروں میں ابتدائی درجات پڑھائے جاتے رہے،جامعہ کی ترقی اور تعلیم کے کاز کو وسیع تر انداز میں انجام دینے کیلئے2002 میں عالی جناب ظفر اللہ خطیب صاحب نے ادارے کو جمعیت کے حوالے کردیا،بھیونڈی شہر میں ایک سلفی ادارے کا قیام جمعیت کا دیرینہ خواب تھا،لہذا جمعیت اہلحدیث ٹرسٹ بھیونڈی نے جامعۃ التوحید کو ہاتھوں ہاتھ لیا،یہاں سے شروع ہوتا ہے ایک چھوٹے سے مدرسے کا بلندیوں کی طرف سفرکا آغاز،2002سے لیکر اب تک جامعہ اپنی حیات مستعار کی بیس بہاریں دیکھ چکا ہے،چند دیواروں اور پتروں پر مشتمل ادارے کو جمعیت اہلحدیث نے اس مقام پر پہونچایا کہ جامعہ کی پر شکوہ عمارت پر کسی بڑی یونیورسٹی کا گمان گذرتا ہے،سچ تو یہ ہیکہ اللہ کی مدد کے بعد ذمے داران جماعت اور اخوان جماعت کی شبانہ روز کاوشوں سے آج جامعہ نوخیز پودے سے ایک تناور درخت بن کر بڑے بڑے اداروں کےشانہ بشانہ چل رہا ہے،جامعہ کے تعمیری کام کی بات چلی ہے تو بڑی ناسپاسی ہوگی اگر محسن جماعت جناب عبدالشکور چودھری صاحب کا نام نہ لیا جائےجنھوں نے جامعہ کی درسگاہ کیلئے زمین اور تعمیری کام کا بیڑا اٹھایا اور اسے پایۂ تکمیل تک پہونچایا۔
سردست ‌ہاسٹل،دارالاقامہ،مطبخ،کانفرنس ہال،لائبریری ،مختلف شعبہ جات کی علیحدہ آفسیں اور شعبہ تحفیظ کی سہ منزلہ عمارت جامعہ کے کیمپس کا حصہ ہیں،فیلڈ کی شجرکاری اور تزئین کا کام وقت کی رفتار کےساتھ جاری وساری ہے،جامعہ کا نصاب جماعت اولی سے ترقی کرتے ہوئے عالمیت تک پہونچا ہے،نصاب میں پانچ درجات کا اضافہ اورشعبۂ تحفیظ کی تشکیل ایک بہت بڑی پیش رفت تھی جسکے ہمہ گیر فوائد کا سب کو اعتراف ہے،اس نصاب کی تدریس کیلئے22/ کی تعداد پر مشتمل قابل اساتذہ ہیں،5 کی تعداد پر مشتمل جامعہ کا غیر تدریسی اسٹاف بھی ہے،لاک ڈاؤن سےقبل 180کے قریب طلبہ ہاسٹل میں رہ کر پڑھتے تھے جنکے قیام وطعام اور دیگر رہائشی ضروریات کی تکمیل جامعہ کرتا ہے،اب تک شعبہ عالمیت سے تقریباً 41طلبہ فارغ ہوچکے ہیں،شعبۂ تحفیظ سے 47طلبہ فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔

جامعہ کے طلبہ علمی و ثقافتی مقابلوں میں حصہ بھی لیتے رہے ہیں اور تاریخ ساز کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں،بھیونڈی سطح کےکئی مقابلوں میں جامعہ کے طلبہ تقریر اور حفظ میں پہلے نمبرات سے کامیاب ہوئے ہیں،کریمی لائبریری ممبئی میں آل انڈیا صحافتی مقابلے میں جامعہ کے ایک طالب نے دوسال مسلسل اول انعام حاصل کیا ہے اور تقریر میں بھی ایک دوسرے طالب نے مسلسل دوسال پہلا انعام حاصل کیا ہے،پونے کے اعظم کیمپس میں بھی جامعہ کے طلبہ نے فتح کے جھنڈے گاڑے ہیں،دوسرےتقریری انعامات کی گواہی شیخ الجامعہ کی آفس میں رکھے ہوئے درجنوں ٹرافی دے رہی ہیں۔

گذشتہ سال لاک ڈاؤن کےسبب عربی ادارے بند تھے لیکن جامعہ نے عیدا لاضحی کے بعد آن لائن تعلیم شروع کی اور پھر تمام طلبہ سے رابطہ کرکے جامعہ بلایا اور آف لائن تعلیم جاری کی،عالمیت کے طلبہ شروع سے ہی کلاسوں میں اساتذہ کے روبرو پڑھتے رہے،الحمدللہ ہم نے سالانہ پروگرام کرکے طلبہ کو حسب دستور جامعہ سے فارغ بھی کیا،رواں سال میں ہم مسلسل طلبہ سے رابطے میں ہیں،بعض طلبہ جامعہ میں پہونچ کر تعلیم سےجڑ بھی گئے ہیں،ہم نے لاک ڈاؤن میں بھی جامعہ اور شعبہ جات کو متحرک رکھا ہے،بھیونڈی شہر میں سلفیت کا یہ چراغ جو جل رہا ہے اور توحید وسنت کی تابشوں سے شرک وبدعت کے تاریکیوں کو دور کر رہا ہے،میں بجاطور پر کہوں گا کہ اس چراغ میں بھیونڈی ممبئی ممبرا پونے ناشک اور دیگر مقامات کے سلفیان جماعت کی گاڑھی کمائی تیل بن کر جل رہی ہے اورچراغ کو روشن کئے ہوئے ہے،ہم اپنے محسنین ومعاونین کے دل کی گہرائیوں سے شکر گذار ہیں اور اللہ سے دعا گو ہیں کہ اللہ آپ سب کو دنیا وآخرت کی بھلائیوں سے نوازے،اپنی رحمتوں اور برکتوں کی آپ پر بارش کرے، ہر بلا ومصیبت سے محفوظ رکھے آمین۔اس شعر کے ساتھ گفتگو کو ختم کرتا ہوں۔

ندی نالے سمندر اور دریا پار کرتے ہیں
اگر صحرا مقابل ہو اسے گلزار کرتے ہیں
ضیاء سورج ہتھیلی پر سجا لینا تو آساں ہے
زمانے کا جو مستقبل ہے ہم تیار کرتے ہیں

کلیم ضیاء