الوداع اے جامعہ

تحریر: رشید سلفی جامعۃ التوحید بھیونڈی

جناب صدر،مشفق اساتذہ کرام،سامعین وحاضرین۔
جامعۃ التوحید کا سالانہ اجلاس اپنی تمام تر رونق سامانیوں اور جلوہ آرائیوں کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہے،مسرت وشادمانی کی لہروں کے ساتھ دل ودماغ میں رنج وغم کی ہوآئیں بھی چل رہی ہیں،دل رنجور اور آنکھیں اشکبار ہیں،کیونکہ اس دبستان علم وفن سے ہماری جدائی کی گھڑی آن پڑی ہے،کیونکہ عالمیت سال آخر کے طالب علم کا یہی مقدر ہے،آج اس اجلاس کے ساتھ جامعہ میں ہماری تعلیمی زندگی کا ایک مرحلہ پورا ہوتا ہے،اور ہم دستور زمانہ کے ہاتھوں مجبور جامعہ کو الوداع کہہ ربے ہیں،بہترمستقبل کی تلاش میں رخت سفر باندھنا یہ زمانے کا دستور ہے،وگرنہ مادر علمی سے جدا ہونا یہ ہمارے بس کا روگ نہ تھا،اب جبکہ ہم رخت سفر باندھ چکے ہیں اور اگلی منزل کی طرف روانگی کا ارادہ کرچکے ہیں تو جامعہ میں گذرا ہوا ایک ایک پل ماضی کے دریچوں سے جھانک رہا ہے اور کہہ رہاہے۔

تیری یادوں کے حسیں پل کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کشکول میں اس کل کے سوا کچھ بھی نہیں

سات آٹھ سال کی طویل مدت باد صبا کے ایک جھونکے کی طرح گذر گئی،حیات مستعار کا یہ سنہری دور اپنے اختتام کو تو پہونچ گیا لیکن عشرت رفتہ کی خوشگوار یادیں دامن دل کو کھینچ رہی ہیں اور ہمارے عزم سفر کو متزلزل کررہی ہیں،لیکن جدائی کا یہ موڑ واپسی کے ساری امیدوں پر پانی پھیر کر کہتا ہے۔

آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا

پھر یادوں کا یہی سرمایہ حیات تو مستقبل میں ہمارے ہمرکاب ہوگااور مادر علمی جامعۃ التوحید سے تار دل کو منسلک رکھےگا۔اور بچھڑے دلوں اور نگاہوں کو جامعہ کے درودیوار سے ٹھنڈک پہونچانے کیلئے آنے پر مجبور کرے گا۔

اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

آج ہم جو کچھ بھی ہیں وہ مادر علمی کے طفیل ہیں،جامعہ میں ہمارے فکر و فن کو سنوارا گیا ہے،ہماری نوک پلک درست کی گئی ہے،علم وفن کی متاع گرانبہا سے ہمیں مالامال کیا گیا ہے.علوم وفنون کے اس گلستان صدرنگ سے ہم نے خوشہ چینی کی ہے،جامعہ کی درسگاہ نے ہمارے کشت دل کی آبیاری کی ہے،جامعہ کی علمی آب وہوا کےلمس تازہ نے دل ودماغ کو حیات نو بخشی ہے۔علم کےبحر ناپیدا کنار میں ہمارے سفینہ حیات کو عازم سفر کیا ہے،کیوں نہ دل جامعہ کا زیربار احسان ہو اورکیوں نہ جدآئی کے یہ حسرتناک لمحے غموں سے دوچار ہوں۔

ہوائے دشت و بیاباں بھی مجھ سے برہم ہے
میں اپنے گھر کے در و بام چھوڑ جاتا ہوں

آج ہم اپنے مشفق ومحترم اساتذہ کرام کے حد درجہ ممنون و مشکور ہیں،انھوں نے ہمیں علم وفن تحقیق ودانش کے روشن جہات سے روشناس کیا،زمانے کے نشیب وفراز سے آگاہ کیا،کتاب وسنت کے جواہر پاروں سے بہرہ مند کیا۔ہمارے دل ودماغ کو علم وفن اور دین وایمان کی تابشوں سے منور کیا،مدرسے کی زندگی میں ،خوشی وغم میں ہمارے ماں باپ کی جگہ ہم پر شفقتوں کا سایہ دراز رکھا۔انکے خلوص اور انکی محبتوں کی گھنی چھاؤں نے کبھی ہمیں گھر سے دوری کا احساس نہیں ہونے دیا،سچ تو یہ کہ بپھرے جذبات اوردریائے محبت کی متلاطم موجوں کی ترجمانی الفاظ نہیں کرسکتے،شاعر کہتا ہے۔

رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

بڑی ناسپاسی ہوگی اگرذمے داران جامعہ کی بارگاہ میں ہدیہ تشکر نہ پیش کیا گیا،ذمے داران جامعہ ہم طلبہ کیلئے گھنے سائبان کی طرح تھے جنھوں نے جامعہ کی ترقی کیلئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی،جامعہ کو بام عروج تک پہونچانے کیلئے شبانہ روز محنت کی ہے،آج جامعہ کا ستارہ اقبال جو بلندی پر جگمگا رہا ہے اسکے پیچھے اللہ کی مدد کے بعدانکی عرق ریزی اور پیہم محنت شامل ہے،یہ اخلاص وللہیت کے پیکر ہیں،مہرووفا کے پتلے ہیں،ایثار وقربانی کی مثال ہیں،انھوں نے جامعہ میں ہمیں ہر طرح کی سہولت بہم پہنچائی،ہمارے کھانے پینے،رہنے سہنے کیلئے حتی الامکان بہتر سہولیات مہیا کیں،ہمیں کبھی کسی چیز کی تکلیف محسوس نہیں ہونے دی،ہم نے جب بھی انتظامی اور تعلیمی امور کے تعلق سے کوئی درخواست کی ہے تو اسے اپنی بساط بھر پوری کرنے کی کوشش کی۔جامعہ کے مالی بحران کے دور میں بھی انھوں نے ہماری پرورش و پرداخت میں کوئی کمی نہیں کی،انکی محبت واپنائیت کی شبنم پاشی سے ہمارے دل وضمیر ہمیشہ شگفتہ وتروتازہ رہے،ان کے دست شفقت سے ہمارے وجود میں اک روشنی سی اترنے لگتی تھی۔انکی مسکراہٹ بھری نصیحتوں سے باغ حیات کا چپہ چپہ مہکنے لگتا تھا ۔آج اپنے ان محسنوں کو خیر باد کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آرہا ہے،دل تو کہتا ہے وقت الٹے قدم لوٹ جائے اور ہم جامعہ میں پھر اعدادی سے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کریں اور اپنے محسنوں کی رفاقت کے مزید کچھ لیل ونہار نصیب ہوجائیں۔

شب وصال مختصر ہے آسمان سے کہو
جوڑ دے ٹکڑا کوئی شب جدآئی کا

آج ہم جامعہ کے اپنے ہم مشرب وہم پیالہ ساتھیوں سے بھی جدا ہورہے ہیں،ہم جامعہ کے درو دیوار کے سائے میں ایک خاندان کی طرح تھے،ایک فیملی جیسے تھے،ہم ایک ساتھ پڑھےایک ساتھ کھیلے،ایک ساتھ کھائے ایک ساتھ گھومے، ایام گزشتہ کے ایک ایک حسین و دلکش نظارے ہماری نگاہوں کے سامنے جھلملارہے ہیں،گلشن زیست کی باغ وبہار ساعتیں دل ودماغ پرکچوکے لگا رہی ہیں۔

کیا یاد کرکے عشرت رفتہ کو روئیے
اک موج تھی جو ناچتی گاتی گذر گئی

سچی رفاقتوں میں کبھی سرد مہری اور شکر رنجی بھی پیدا ہوجاتی ہے،کبھی وقتی ناچاقی قطع کلامی تک پہونچا دیتی ہے،ہم ایک ساتھ تھے تو ہنسے اور مسکرآئے بھی، لڑے اور جھگڑے بھی،تعلقات میں کبھی گل ولالہ کی آمیزش تھی تو کبھی کانٹوں کی خراش تھی،خوش گپیوں کےساتھ تلخ کلامی کے جھونکے بھی چلے مگر آج الفتوں کی موج خوشبو تلخیوں کو بہالے جانا چاہتی ہے اور روح صرف اور صرف ترانہ الفت میں گم ہوجانا چاہتی ہے۔وقت بڑی تیزی سے گذر رہا ہے،جذبات کے منہ زور بہاؤ کو لفظوں کے باندھ نہیں روک سکتے۔انھیں چند بے ترتیب جملوں پر اس شعر کیساتھ سلسلہ کلام کو موقوف کرتا ہوں۔

رُخصت کا وقت ياد کیے جا رہا ہوں ميں
‘بے کیف ہے دل اور جیے جا رہا ہوں ميں ‘
تیرے بنا اے ساقیا ایسی ہے زندگی
خالی ہے اپنا جام پیے جا رہا ہوں ميں